Arshi khan

Add To collaction

14-Apr-2022 لیکھنی کی کہانی -منزل عشق قسط 9

منزل عشق قسط  9
وجدان ہاسپیٹل کے کمرے میں آیا اور زرش کے پاس بیٹھ کر نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما۔اپنے ہاتھ پر ایک لمس محسوس کر کے زرش نے آہستہ سے اپنی بند آنکھیں کھولیں۔
"وجدان وانیا۔۔۔"
زرش نے نم آنکھوں سے کہا تو وجدان نے فوراً اس کے آنسو اپنے پوروں پر چن لیے۔
"زرش وعدہ کرتا ہوں کہ وہ بہت جلد ہمارے پاس ہو گی۔۔۔۔"
وجدان نے اسکا ہاتھ تھام کر بہت محبت سے کہا۔
"میں ہی کیوں کھو دیتی ہوں سب وجدان۔۔۔۔بچپن میں کتنی خوش رہتی تھی میں اور پھر اس آدمی نے مجھے قید کے کے میری ساری خوشیاں مجھ سے چھین لیں۔۔۔۔میری آواز بھی مجھ سے چھین لی۔۔۔۔"
زرش نے اپنے کندھے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جہاں آج بھی آر بی کا دیا وہ نشان موجود تھا۔
"پھر آپ نے مجھے اس اندھیرے سے نکالا اور اپنی محبت سے میرا ہر درد مٹا دیا۔۔۔۔"
زرش نم آنکھوں سے مسکرائی تھی لیکن پھر وہ مسکان غائب ہو گئی۔
"پھر آپ نے بھی مجھ سے وہ محبت چھین لی وجدان اور بے رخی میرے مقدر میں لکھ دی۔۔۔"
وجدان نے تڑپ کر زرش کا ہاتھ تھام کر اپنے ہونٹوں سے لگایا اب تو اسکی سبز آنکھیں بھی نم ہو چکی تھیں۔
"میں نے پھر بھی اپنی بیٹیوں میں اپنا جہان اپنی خوشیاں تلاش کر لیں وجدان اور اب اسے بھی کھو دیا۔۔۔۔میں بہت منہوس ہوں وجدان موت کیوں نہیں آ جاتی مجھے۔۔۔۔"
وجدان نے فوراً اپنا ہاتھ اسکے ہونٹوں پر رکھا تھا۔
"نہیں زرش ایسا مت کہو بہت بڑی غلطی کر دی میں نے تم سے اپنی محبت چھین کر۔۔۔۔۔اور اپنی اس غلطی کا ازالہ ضرور کروں گا۔۔۔۔"
وجدان نے محبت سے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھتے ہوئے کہا۔
"میری وانیا وجدان پلیز اسے مجھے لا دیں تو مجھے کچھ نہیں چاہیے آپ سے آپ کی محبت بھی نہیں مانگوں گی آخری سانس تک آپ کی بے رخی برداشت کروں گی بس میری وانی مجھے لا دیں ۔۔۔۔"
زرش کے رو کر کہنے پر وجدان بے بسی سے اپنی آنکھیں موند گیا۔
"بھروسہ رکھو نور خان بہت جلد ہماری بیٹی ہمارے پاس ہو گی اپنی کسی بھی بیٹی ہو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔"
وجدان نے اس سے وعدہ کیا اور وہاں سے اٹھ کر باہر آیا۔اسے اس وقت اپنے آپ سے شدید نفرت ہو رہی تھی۔ابھی تو ذرا شی نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنی بے رخی کے وجہ سے دوسری بیٹی کو بھی خود سے دور کر بیٹھا تھا۔
انس نے صبح فون پر جو پتہ وجدان کو دیا تھا اب وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔اس کا مطلب ہانیہ ضرور انس کو ساتھ ملا چکی تھی۔
"نہیں ہانیہ وانیا کو تو مجبوری میں کھویا میں نے بیٹا لیکن تمہیں اس دلدل میں نہیں جانے دوں گا میں۔"
اتنا سوچ کر وجدان نے اپنا موبائل نکالا اور کسی کو فون کرنے لگا۔
"ظہیر کچھ ڈیٹیل سینڈ کر رہا ہوں میں تمہیں میری بیٹی ہانیہ کے بارے میں ہیں اسے کہیں سے بھی ڈھونڈو لیکن شام تک اس کا پتہ مجھے معلوم ہونا چاہیے۔۔۔۔"
"جی سر جیسا آپ کہیں۔۔۔۔"
ظہیر نے اتنا کہہ کر فون بند کر دیا تو وجدان ضبط سے مٹھیاں واپس زرش کے پاس چلا گیا۔
                    ❤️❤️❤️❤️
صبح ہوتے ہی وہ لوگ حیدرآباد کے لیے نکل چکے تھے اور اب سفر کرتے انہیں بہت دیر ہو گئی تھی۔کل کے برعکس آج ہانیہ نے ایک سادہ سی شلوار قمیض پہنی تھی اور سر پر چادر روڑے وہ بالکل مختلف لگ رہی تھی۔
"ہمیں فلائٹ کے ذریعے جانا چاہیے تھا اس طرح تو ہمیں دو دن لگ جائیں گے وہاں پہنچتے ہوئے۔۔۔"
ہانیہ نے بے چینی سے کہا تو اس کی بات پر انسس نے گہرا سانس لیا۔
"میں تمہارے باپ کو بتا چکا ہوں کہ تم میرے پاس ہو۔۔۔وہ ضرور تمہیں ڈھونڈ رہے ہوں گے اور اگر ہم فلائٹ کے ذریعے جاتے تو اس وقت سر جھکا کر تمہارے بابا کے سامنے کھڑے ہوتے۔۔۔"
انس کی بات سمجھ کر ہانیہ نے ہاں میں سر ہلایا وہ صحیح کہہ رہا تھا۔وہ ساتھ موجود  شخص کو مکمل نظرانداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن جب نہیں رہ پائی تو اسکی جانب مڑی۔
"بیوی کہاں ہوتی ہیں آپ کی مجھے نظر نہیں آئیں وہ گھر میں؟"
انس نے مسکرا کر ہانیہ کو دیکھا۔
"ہوگی تو نظر آئے گی میری کوئی بیوی ہے ہی نہیں۔۔۔"
ہانیہ کا منہ حیرت سے کھل گیا۔
"لیکن آپ کی تو شادی ہونے والی تھی ناں؟"
"ہاں لیکن ہوئی نہیں میں لڑکی کو پسند نہیں آیا۔"
انس نے سپاٹ سے انداز میں کہا لیکن ہانیہ نے اسے کوئی جواب دیے بغیر پھر سے اپنا رخ باہر کی جانب کر لیا۔
 اچانک گاڑی رکی تو انس سامنے پولیس کو چیکنگ کرتا دیکھ پریشان ہوا وہ ضرور ہانیہ کو ہی ڈھونڈ رہے ہوں گے۔
"ہانیہ اپنا سر میرے کندھے پر رکھو اور سونے کی ایکٹنگ کرو۔۔۔"
انس کی بات ہر ہانیہ حیران ہوئی۔
"میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی موقعے کا فائدہ مت اٹھا۔۔۔"
ہانیہ کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب انس نے اسکا سر پکڑ کر اپنے سینے میں چھپا لیا۔
ہانیہ نے مزاحمت کرنا چاہی لیکن جب اس کی نظر بس میں داخل ہوتے پولیس والوں پر پڑی تو خود بھی فوراً اپنا چہرہ انس کے سینے میں چھپا گئی۔انس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ آئی۔
پولیس کانسٹبل نے مسافروں کا جائزہ اور انس کے پاس کھڑا ہو گیا۔
"یہ لڑکی کون ہے تمہارے ساتھ۔۔۔"
"بیوی ہے میری سو چکی ہے ڈسٹرب مت کرو۔۔۔۔"
انس کی بات پر اسکے سینے میں چہرہ چھپائی ہانیہ نے بہت زور سے اپنے دانت اسکے سینے میں گاڑے تھے اور انس بے چارہ بس ہلکا سا سسس کر کے رہ گیا۔
"ثبوت۔۔۔۔"
انس نے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر پولیس والے کے ہاتھ میں پکڑایا جسے دیکھ کر پولیس والے کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔اس سے پہلے کہ وہ انس کو سیلیوٹ کرتا انس نے اسے خاموشی سے وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔اس کے جاتے ہی ہانیہ اس سے دور ہوئی اور اسے گھورنے لگی۔
"بہت مجبور ہو کر میں آپ کے پاس مدد مانگنے آئی تھی کیونکہ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا اس مجبوری کو کچھ اور مت سمجھیے گا۔۔۔۔اگر میرے بس میں ہوتا تو شکل بھی نہیں دیکھتی آپکی۔۔۔"
ہانیہ نے دانت پیس کر کہا اور اپنا رخ کھڑکی کی جانب کر دیا جبکہ انس اس کی اس بے رخی پر بس مسکرایا تھا۔بلکل بھی نہیں بدلی تھی وہ آج بھی تو ویسی ہی تھی اوپر سے جتنی سخت اندر سے اتنی ہی نرم اور معصوم۔
اور انس نے بھی قسم کھائی تھی کہ اس کی بے رخی کے باوجود اپنی آخری سانس تک اس کی حفاظت کرے گا کیونکہ وہ باڈی گارڈ تھا اس کا۔۔۔۔اس کا ہیرو۔۔۔۔
                    ❤️❤️❤️❤️
شام کا وقت ہو رہا تھا اور سب حسب معمول وقت گزاری کے لیے ٹی وی دیکھ رہے تھے کہ اچانک انکے ٹی وی پر چلتی خبریں،فلمیں ڈرامے سب بند ہو گئے اور انکی جگہ رسیوں میں جکڑا ایک زخموں سے چور شخص نظر آنے لگا۔
سب حیرت زدہ ہو چکے تھے کیونکہ وہ کوئی بھی چینل کیوں نہ بدل لیتے ہر جگہ بس وہی منظر دیکھنے کو مل رہا تھا۔جبکہ قانون اور آپریٹنگ سسٹم والے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ ماہر ہیکر کون تھا جو انکا پورا سسٹم ہیک کر کے اپنے کنٹرول میں لے چکا تھا۔
"ننن۔۔۔۔نہیں چھوڑ دو جانے دو۔۔۔۔میں مانتا ہوں اپنا گناہ سب مانتا ہوں۔۔۔۔"
اچانک ہی وہ شخص روتے ہوئے گڑگڑانے لگا اور کالے کپڑوں میں ملبوس شخص اس کے سامنے آیا جس کا چہرہ بھی کالے رومال سے ڈھکا ہوا تھا واضح تھیں تو بس دو خطرناک سبز آنکھیں۔
"میں نے مارا تھا۔۔۔۔وہ۔۔۔وہ سرکاری ملازم جس نے رشوت لینے سے انکار کیا میں نے مارا تھا اسے اس۔۔۔۔اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو۔۔۔۔قبول ہے مجھے اپنا گناہ۔۔۔۔"
اب شخص باقاعدہ روتے ہوئے اپنے گناہوں کا اعتراف سر عام کر رہا تھا اور کالے کپڑوں والا وہ شخص اسکی کوئی بھی بات سنے بغیر اس پر پٹرول ڈال رہا تھا۔
"اور ۔۔۔۔۔اور اسکی آنکھوں کے سامنے میں نے اسکی سترہ سالہ بیٹی کے ساتھ۔۔۔۔مانتا ہوں اپنا گناہ معاف کر دو۔۔۔۔"
وہ شخص تو رہا تھا اور لوگ اب اسے وحشت اور نفرت سے عبرت کا نشان بنتے دیکھ رہے تھے۔
"سکندر کی عدالت میں تجھ جیسے جانور کے لیے کوئی معافی نہیں۔۔۔۔"
کالے کپڑوں والے شخص نے وحشت سے کہا اور پھر لائٹر جلا کر اس شخص کو سب کی آنکھوں کے سامنے جلا دیا۔
جیسے ہی اسکا وجود آگ کی لپٹوں میں آیا ٹی وی سے وہ منظر ہٹ کر پھر سے سب نارمل ہو چکا تھا لیکن وہ منظر دیکھ کر ہر گناہ گار کی روح کانپ چکی تھی۔
                     ❤️❤️❤️❤️
سلطان اپنے خفیہ اڈے پر صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر بازو پھیلائے سکون سے آنکھیں موندے ہوئے تھا جب اسکا سب سے خاص آدمی وہاں آیا۔
"سر آپ کو کچھ بہت ضروری بتانا ہے۔۔۔۔"
"بکو۔۔۔۔"
اس نے آنکھیں کھولے بغیر کہا جبکہ چہرے پر بہت زیادہ اطمینان تھا۔
"کوئی سکندر آیا ہے سر ہمارے تین آدمی مار دیے اس نے اور آج تو ہمارے بہت خاص آدمی بلال کو ٹی وی پر سب کے سامنے زندہ جلا دیا۔
"اپنے آدمی کی بات پر سلطان میں نے اپنی آنکھیں کھولیں اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
"سکندر؟مجھے تو چودہ سال پہلے کا بس ایک سکندر یاد ہے اور اس کا انجام تم بھی جانتے ہو۔۔۔۔قبر میں سے اٹھ کر تو نہیں آ سکتا وہ۔۔۔۔"
سلطان نے انتہائی زیادہ اعتماد سے کہا اور وہ پر اعتماد ہوتا بھی کیوں نا سکندر کو اس نے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا۔
"نہیں سر یہ کوئی نیا آیا ہے اور ہمارے ہی آدمیوں کو مار رہا ہے۔۔۔"
سلطان کے ماتھے پر بل آئے۔
"دیکھ لوں گا میں اس سکندر کو بھی چند دن کھیلنے دو اسے پھر پرانے سکندر کے پاس پہنچا دیں گے اسے بھی۔"
سلطان نے اطمینان سے کہتے ہوئے پھر سے اپنی آنکھیں موند لیں۔
"ایک اور بات ہے سر؟"
"ہمممم ۔۔۔۔۔"
"راگا۔۔۔۔وہ یہاں آیا ہے اور آپ سے ملنا چاہتا ہے کہتا ہے آپ سے بات کیے بغیر کوئی کام نہیں کرے گا۔۔۔۔"
اب سلطان کے  چہرے پر بے زاری کے اثرات مرتب ہو چکے تھے۔
"ٹھیک ہے آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے آؤ اسے یہاں پر۔۔۔۔راگا پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے لیکن اتنا بھی نہیں کہ سلطان سے اپنی پہچان بتا دے۔۔۔۔"
اس آدمی نے ہاں میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا تھوڑی دیر بعد ہی وہ راگا کو باقی آدمیوں کے ساتھ آنکھوں پر پٹی باندھ کر وہاں لایا تھا۔
"بولو راگا بہت عرصے سے میرا کام کرتے آئے ہو تم تو اس دفعہ ایسا کیا ہوا کے بھروسے کی خاطر تمہیں مجھ سے ملنا پڑا؟"
سلطان نے گہری نگاہوں سے اپنے سامنے کھڑے جوان مرد کو دیکھتے ہوئے کہا۔
"اصول بدل لیے اپنے راگا نے یا یوں سمجھ لے ماڑا فوجیوں سے ڈنڈے کھا کر یہ سمجھ آگیا کہ خود کے سوا کسی پر بھروسہ نہ کرو۔۔۔۔اب تو راگا اپنے باپ پر بھی بھروسہ نہ کرے ماڑا۔۔۔۔"
راگا کی بات پر سلطان کے لب مسکرائے بغیر نہیں رہ سکے۔
"تم باتیں کمال کرتے ہو راگا اسی لیے مجھے پسند ہو۔۔۔بولو کیا چاہیے تمہیں؟"
سلطان کے سوال پر راگا کے لب شان سے مسکرا دیے۔
"زیادہ کچھ نہیں لالے کی جان بس دیدار سلطان کی خواہش تھی لیکن لگتا ہے آواز پر ہی کام چلانا پڑے گا غریب کو۔۔۔۔فکر مت کرو ماڑا تمہارا کام ہو جائے گا لیکن۔۔۔۔"
"لیکن کیا؟"
"لیکن بدلے میں مجھے تم سے ہتھیار اور پیسہ نہیں بلکہ بدلہ چاہیے۔۔۔جنرل شہیر کی موت کی خبر ملنی چاہیے کل مجھے اور ماڑا اپنا اچھا آدمی بھیجنا وہی نہ ہو کہ جنرل کی بجائے تیرا آدمی ہی۔۔۔"
راگا نے اپنی گردن پر انگلی پھیری جبکہ راگا کی ڈیمانڈ پر سلطان مسکرا دیا۔
"جان تو مجھ سے بہتر طریقے سے لے سکتے ہو راگا پھر میری کیا ضرورت پڑھ گئی؟"
"تم میرا کب سے استمعال کر رہا ہے تو سوچا اب کی بار میں تمہارا کر لوں؟"
سلطان مسکرا کر اسکے چہرے پر موجود مسکان کو دیکھتا رہا۔
"ٹھیک ہے راگا کل صبح تک تمہیں جنرل کی موت کی خبر مل جائے گی لیکن کل شام کو ٹی وی پر ریلوے اسٹیشن پر دھماکے کی خبر چلنی چاہیے اور الزام ستارہ پارٹی کے سربراہ پر آئے۔۔۔"
راگا کے ہونٹ اپنے آپ مسکرائے۔
"ایسا ہی ہو گا لالے کی جان۔۔۔"
"الوداع راگا۔۔"
اتنا کہہ کر سلطان نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا تو وہ راگا کو وہاں سے لے گئے۔
"یہ کام تم ہی کرواو گے AK اپنے سب سے قابل آدمی کو بھیجنا اور رات کو سویا ہوا جنرل شہیر صبح اٹھنا نہیں چاہیے۔۔۔۔"
"ایسا ہی ہو گا سر۔۔۔۔"
اے کے اتنا کہہ کر وہاں سے چلا گیا تو سلطان پھر سے اپنی آنکھیں موند گیا۔
"جیت صرف سلطان کی ہوتی ہے حقیر پیادے اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتے کل تم برباد ہو گے اور پرسوں تمہاری خودکشی کی خبر منظر عام پر آئے گی۔۔۔۔ہاں یہی ہوتا ہے سلطان کی راہ میں آنے کا انجام۔۔۔۔۔"
سلطان مسکرا کر اپنے ذہن میں ستارہ پارٹی کے رہنما حمزہ جمیل سے مخاطب ہوا جسکا کل کام تمام ہونے والا تھا۔
                      ❤️❤️❤️❤️
جنت اپنے کمرے میں بیڈ پر الٹا لیٹے ہوئے مسکرا رہی تھی۔دماغ میں اس وقت صرف ایک شخص کا خیال چل رہا تھا۔سالار ملک کا خیال۔
دوپہر کو سالار کالج سے اسے ایک کھلے سے میدان میں لے گیا جنت نے گاڑی ہے شیشے سے باہر دیکھنا چاہا تھا۔
"اپنی آنکھیں بند کرو؟"
سالار کی بات پر جنت اپنی آنکھیں مزید بڑی کر چکی تھی۔
"پاگل ہو جو ایک غیر شخص کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی آنکھیں بند کر لوں مانا میں بیوقوف ہوں لیکن اتنی بڑی بیوقوف بھی نہیں۔۔۔۔"
جنت نے منہ پھلا کر کہا۔
"جنت تم میرا ٹائم ویسٹ کر رہی ہو بس پندرہ منٹ بچے ہیں میری پاس آنکھیں بند کرو اپنی۔۔۔۔"
جنت اس کی بات پر اپنا منہ پھلاتے ہوئے آنکھیں بند کر چکی تھی پھر اسے محسوس ہوا کہ سالار نے اسے گاڑی میں سے نکالا تھا اور کسی کافی اونچی چیز پر چڑھا کر اسے ایک سیٹ پر بیٹھایا۔
"اب آنکھیں کھول لوں؟"
جنت کو بہت زیادہ بے چین ہو رہی تھی اسی لیے پوچھنے لگی۔
"نہیں ابھی نہیں۔۔۔۔"
اتنا کہہ کر سالار نے اسکے کانوں پر ہیڈ فون جیسا کچھ پہنایا۔اچانک ہی جنت کو بہت تیز ہوا کا جھونکا محسوس ہوا اور ساتھ ہی بہت زیادہ شور بھی۔
فوراً ہی جنت نے اپنی سنہری آنکھیں کھول دیں اور حیرت سے ارد گرد دیکھنے لگی۔
اس وقت وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھے تھے جو زمین سے کافی اوپر اٹھ چکا تھا اور آہستہ آہستہ ہوا میں جا رہا تھا۔
"ہائے سچی ہم اڑ رہے ہیں؟"
ہوا اور شور کے باعث جنت نے چلا کر پوچھا اور دروازے کے قریب ہو کر نیچے کی جانب دیکھنے لگی جہاں سے تقریباً پورا لاہور دیکھائی دے رہا تھا۔
اسکے دروازے کے قریب ہوتے ہی سالار نے احتیاطاً اسکی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹ کر اسے اپنے قریب کیا تھا۔جنت تو ہر چیز نظر انداز کیے اس کھلی ہوا اور منظر میں کھو چکی تھی۔
تقریباً دس منٹ تک ان کو ہوا کی سیر کروا کر وہ ہیلی کاپٹر نیچے اترا تو سالار اسے اپنے ساتھ اپنی گاڑی کے پاس لایا۔
"مزہ آیا؟"
سالار کے پوچھنے پر جنت نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔
"حد سے زیادہ تمہیں کیسے پتہ کہ مجھے ہوا میں اڑنے کا بہت زیادہ شوق ہے؟"
جنت اپنی آنکھیں بڑی کیے معصومیت سے پوچھ بیٹھی۔
"بلکل ویسے ہی جیسے مجھے یہ پتہ ہے کہ تمہیں نمکین سے زیادہ میٹھا پسند ہے،پیزا سے تمہیں نفرت ہے اور آئیس کریم تمہاری جان ہے۔آسمان کا رنگ تمہیں سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے اور بس چلے تو دنیا جہان کے پھول اپنے کمرے میں سجا لو۔۔۔ڈراونی فلموں سے نفرت ہے تمہیں اور ابھی تک بابی والے کارٹونز دیکھتی ہو۔۔۔۔"
اپنی پسند اور نہ پسند اس کے منہ سے سن کر جنت بہت زیادہ حیران ہوئی تھی۔
"اب بھی مجھے اپنا دوست مانتی ہو یا نہیں مان لو دنیا کا سب سے اچھا دوست ثابت ہوؤں گا تمہارے لیے۔"
سالار نے گاڑی میں سے ایک ٹوکری نکال کر جنت کے سامنے کی تو جنت نے حیرت سے اس پر موجود کپڑا ہٹایا۔
اس ٹوکری میں موجود سفید رنگ کا چھوٹا سا پپی دیکھ کر جنت کا دل پگھل گیا اور فوراً اس نے اس پیارے سے پپی کو باہوں میں اٹھایا تھا۔
"افف یہ کتنا پیارا ہے سالار۔۔۔"
جنت نے اسکی ملائم فر کو سہلاتے ہوئے پیار سے کہا۔
"بلکل تمہاری طرح۔۔۔"
اچانک ایک خیال آنے پر جنت نے پریشانی سے سالار کو دیکھا۔
"لیکن میں اسے نہیں رکھ سکتی بابا کو یہ پسند نہیں اور وہ نہیں رکھنے دیں گے ۔۔۔۔"
جنت کی پلکیں اس بات پر نم ہو چکی تھیں۔
"تو یہ میرے گھر پر رہے گا اور تم جب چاہو میرے گھر اس سے ملنے آ سکتی ہو لیکن اس کے لیے۔۔۔۔"
سالار کے بات ادھوری چھوڑنے پر جنت نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"اس کے لیے تمہیں میری دوست بننا پڑے گا تو بتاؤ اب ہوں میں تمہارا دوست یا نہیں؟"
سالار کے سوال پر جنت اپنا سر جھکا گئی۔وہ کیسے اسے انکار کرتی جس نے صرف آدھے گھنٹے میں اس کی سب سے بڑی خواہش پوری کر دی تھی جو اسے اس سے بھی زیادہ جانتا تھا۔
"بابا کو پتہ چلا تو بہت ڈانٹیں گے مجھے۔۔۔"
جنت نے منہ پھلا کر کہا۔
"اتنا رسک تو لینا پڑے گا ناں۔"
سالار نے مسکرا کر کہا اور پھر گھڑی کی جانب دیکھا۔
"بس دو منٹ رہ گئے ہیں جنت۔۔۔۔"
سالار کی بات پر جنت خاموشی سے اپنا سر جھکا گئی وہ کیسے اپنے باپ سے چھپ کر کچھ کرنے کا سوچتی بہت پیار کرتی تھی وہ اپنے بابا سے۔
"ٹھیک ہے مس جنت شاہ جیسی آپ کی مرضی۔۔۔"
سالار نے اتنا کہہ کر وہ پپی اسکے ہاتھ سے لے کر واپس ٹوکری میں رکھا اور گاڑی کی جانب مڑا، بغیر کچھ سوچے سمجھے جنت آگے بڑھی۔
"ہوں میں آپ کی دوست پکا والا وعدہ۔۔۔۔"
سالار کے ہونٹوں پر فاتح مسکان آئی تھی۔
"اور میں بھی اپنی آخری سانس تک دنیا کی ہر خوشی تمہارے قدموں میں ڈال دوں گا جنت پکا والا وعدہ۔۔۔۔"
سالار کی کہی بات یاد کر کے جنت پھر سے مسکرائی اور اپنا ہاتھ ٹھوڈی کے نیچے رکھ دیا۔
"چھچھورا سیاست دان۔۔۔"
جنت نے مسکرا کر کہا اور پھر ہنستے ہوئے اپنا دوپٹے سے چہرہ چھپا لیا۔
                     ❤️❤️❤️❤️
رات کے بارہ بج چکے تھے اور وانیا بے چینی سے گھڑی کی جانب دیکھتی مرجان کا انتظار کر رہی تھی۔
اچانک دروازہ کھلنے پر پہلے تو وانیا گھبرائی لیکن پھر دروازے میں کھڑی مرجان کو دیکھ کر اس کے سانس میں سانس آیا۔
"چلو ہمیں دیر نہیں کرنا چاہیے ویرہ اور راگا
ښاغلی کسی کام سے گیا ہے ہمیں پھر دوبارہ ایسا موقع نہیں ملے گا چلو۔۔۔۔"
مرجان نے بے چینی سے کہا تو وانیہ نے اٹھ کر جلدی سے دوپٹہ اچھی طرح سے اوڑھ لیا اور اس کے ساتھ باہر آگئی۔
رات کے اندھیرے میں گل اسے سب کی نظروں سے چھپ چھاتے ایک سنسان جگہ تک لے آئی جہاں اسے یقین دلایا گیا تھا کہ آج وہاں کوئی بھی نگرانی کے لیے نہیں کھڑا ہو گا اور ایسا ہی تھا۔
"تم اس راستے سے سیدھا بھاگ جاؤ پھر وہاں سے دائیں مڑ جانا سامنے ہی تمہیں کالے کپڑوں میں کھڑا شخص نظر آئے گا وہ تم کو سکردو میں فوج کے پاس لے جائے گا۔۔۔"
مرجان نے اس کے ہاتھ میں ایک ٹارچ پکڑاتے ہوئے کہا ہر اپنی گرم چادر اُتار کر اس کے کندھوں پر پھیلائی۔
"تمہارا بہت شکریہ مرجان مر کر بھی تمہارا احسان نہیں بھولوں گی۔"
وانیا نے اسکے گلے لگتے ہوئے کہا اور آگے بڑھنے لگی۔
"کون ہے وہاں ؟"
ایک آدمی کی آواز پر دونوں نے سہم کر سامنے دیکھا جہاں سے ایک پہرےدار آرہا تھا مرجان کو تو یہی خبر ملی تھی کہ اس وقت یہاں کوئی نہیں ہوگا لیکن اس شخص کو وہاں آتا دیکھ ان دونوں کی روح فنا ہوئی تھی۔
"بھاگو وانیا چھپ جاو فوراً۔۔۔۔جلدی۔۔۔"
مرجان کے ایسا کہنے پر وانیا جلدی سے وہاں سے بھاگ گئی لیکن وہ آدمی مرجان کو نظر انداز کرتا وانیا کے پیچھے بھاگا۔
وانیہ کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اس مصیبت سے کیسے نکلے خوف کے مارے دل حلق کو آ چکا تھا۔
اچانک وانیا کی نظر پہاڑ کے دامن میں موجود ایک گھر پر پڑی تو جلدی سے وہاں سے بھاگ کر اس گھر میں داخل ہوگئی۔
اپنے پیچھے دروازہ بند کرکے وانیا خوف سے کانپ رہی تھی۔ہمت کر کے وانیہ نے ساتھ موجود کھڑکی سے باہر جھانکا اور اس آدمی کو دور جاتا دیکھ سکھ کا سانس لیا۔
"واہ کیا قسمت ہے جو مجھ سے چھینا تھا آج خود ہی میرے در پر چلا آیا۔۔۔"
ایک آدمی کی آواز پر وانیا فورا پلٹی اور خباثت سے مسکراتے کال کو دیکھ کر اسکی روح فنا ہو گئی۔

   0
0 Comments